پاکستان میں پیشہ ورانہ صحت و حفاظت کے قوانین

پیشہ ورانہ صحت و حفاظت سے متعلق قوانین، قوانین محنت کا ایک نہایت اہم حصہ ہوتے ہیں۔ ہہ
پیشہ ورانہ صحت و حفاظت 
 
پاکستان میں پیشہ وارانہ صحت وحفاظت سےمتعلق کون کون سے قوانین موجود ہیں؟ 
 
پاکستان میں پیشہ ورانہ صحت و حفاظت سے متعلق آزادانہ اور مستقل قانون سازی تاحال نہیں کی گئی۔ فیکٹریز ایکٹ 1934 کا تیسرا باب صحت وحفاظت سے متعلق ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں نے اس ایکٹ کے تحت قواعدوضوابط بھی بنا رکھے ہیں۔ فیکٹریز ایکٹ کے تحت ہی وضع کیے گئے خطرناک پیشوں سے متعلق قواعد 1963 بھی پیشہ ورانہ صحت وحفاظت سے متعلق ہیں۔ ان قواعد کا اطلاق نہ صرف خطرناک پیشوں پر ہوتا ہے بلکہ ان کے تحت چیف انسپکٹر آف فیکٹریز کو اس بات کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ کسی اور پیشے یا پروسیس (کام) کو خطرناک قرار دے۔ جس سے اس پروسیس پر ان قواعد کا اطلاق ہو گا۔ 
 
پیشہ ورانہ صحت و حفاظت سے متعلق دیگر قوانین یہ ہیں:
 
بندرگاہی مزدوروں سے متعلق ایکٹ (ڈاک لیبررز ایکٹ) 1934
مائنز ایکٹ 1923 
قانون معاوضہ کارکنان 1923 
پراونشل ایمپلائز سوشل سیکیورٹی آرڈیننس 1965
ویسٹ پاکستان شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹس آرڈیننس 1969 
بوائلرز اینڈ پریشر ویسلز آرڈیننس 2002
 
کیا آپ فیکٹریز ایکٹ کی پیشہ ورانہ صحت و حفاظت سے متعلق دفعات کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟ 
 
فیکٹریز ایکٹ کے تیسرے باب میں کام کی جگہ پر صحت و حفاظت سے متعلق عام دفعات موجود ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو اس ایکٹ کے تحت قواعد و ضوبط بنانے کی اجازت دی گئی ہے اور فیکٹری انسپکٹرز بھی اس باب کی دفعات کے تحت قواعد بنا سکتے ہیں۔ نیچے دی گئی لسٹ میں صحت و حفاظت سے متعلق ان تمام انتظامات کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ فیکٹریز ایکٹ کے تیسرے باب میں موجود ہیں۔ اس سے یہ دکھانا بھی مقصود ہے کہ اگرچہ پاکستان میں صحت و حفاظت سے متعلق علیحدہ قانون موجود نہیں ہے لیکن ان تمام ایشوز کا باریک بینی سے احاطہ کیا گیا ہے۔
 
صفائی
ردی اور بیکار سیال مادہ کو ٹھکانے لگانا
روشندان اور ٹمپریچر
گرد اور بخارات
مصنوعی نمی
بھیڑ
روشنی
پینے کا پانی
بیت الخلا اور پیشاب خانے
اگالدان 
متعدی اور وبائی امراض سے متعلق احتیاط
لازمی ٹیکہ (جسکے اخراجات آجر برداشت کریگا)
کینٹین
ویلفیئر آفیسر
آتشزدگی کی صورت میں احتیاط
مشینوں کے جنگلے
چلتی ہوئی مشینوں یا ان پر کام کرنے کے متعلق
پر خطر مشینوں پر کم عمروں کا کام کرنا
گیئر کا اہتمام اور بجلی بند کرنے کی تدابیر
خودکار مشینیں 
نئی مشینوں کی کیسنگ (کور یا غلاف چڑھانا)
کپاس کے بیلنے کے نزدیک عورتوں اور نوعمروں کی ملازمت کی ممانعت 
کرین اور دیگر وزن اٹھانے والی مشینری 
بلند سار اور لفٹ
گھومنے والی مشینیں
پریشر پلانٹ 
فرش، سیڑھیاں اور گزرگاہیں
گڑھا، گندے پانی کی حوضی، فرش میں شگاف وغیرہ
بہت زیادہ وزن (وزن کی حد کا تعین)
آنکھوں کی حفاظت 
انسپکٹر کے ناقص حصوں کی تفصیلات مانگنے اور پائیداری کا جائزہ لینے کے اختیارات 
عمارت، مشینری اور مصنوعات بنانے کے عمل کی حفاظت
مضر صحت بخارات کے ضمن میں احتیاط 
دھماکہ خیز یا بھڑکنے والی دھول، گیس وغیرہ 
نوعمروں کے داخلے کی ممانعت 
 
بعض حادثات کا نوٹس 
 
اسی طرح سے مائنز ایکٹ کا پانچواں باب بھی صحت وحفاظت کے انتظامات کے بارے میں ہے۔ ڈاک ورکرز (گودی/بندرگاہ پر کام کرنے والے مزدور) کی صحت و حفاظت کے متعلق دفعات پاکستان ڈاک لیبررز ریگولیشنز میں ملتی ہیں۔ 
 
حکومت اس بات کو کیسے یقینی بناتی ہے کہ ان قوانین کی مکمل طور پر کام کی جگہوں پر پاسداری ہو؟
 
ان قوانین کے تحت صوبائی یا وفاقی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اہل اشخاص کی بطور انسپکٹرز تعیناتی کریں۔ اب یہ فرض انسپکٹرز پر عائد ہوتا ہے کہ وہ ان قوانین کا بلاامتیاز نفاذ کریں۔ انسپکٹرز کے اختیارات میں کسی بھی جگہ (جو فیکٹری کے طور پر استعمال ہوتی ہو یا اسے یقین ہو کہ یہ فیکٹری کے طور پر استعمال ہوتی ہے) داخل ہونے، معائنہ کرنے اور اپنے فرائض منصبی کی تکمیل میں کارکنوں سے بیان/گواہی لینا شامل ہیں۔ کسی ایسے شخص کو انسپکٹر مقرر نہیں کیا جا سکتا یا وہ انسپکٹر کے عہدے پر قائم نہیں رہ سکتا اگر اسکا بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کام کی جگہ یا کاروبار سے مفاد وابستہ ہو۔ فیکٹریز ایکٹ کے تحت یہ جگہ کوئی فیکٹری ہو سکتی ہے، ڈاک لیبررز ایکٹ کے تحت کوئی بندرگارہ یا بحری جہاز ہو سکتا ہے جبکہ مائنز ایکٹ کے تحت کوئی کان ہو سکتی ہے۔ 
 
کیا آجر یا حکومتی ادارے کارکنوں کو پیشہ ورانہ صحت و حفاظت سے متعلق ٹریننگ دیتے ہیں؟
 
حکومتی ادارے جیسے کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایڈمنسٹریشن اور ڈائریکٹوریٹ آف ورکرز ایجوکیشن کارکنوں کو ان امور پر ٹریننگ دیتے ہیں۔ ڈائریکٹوریٹ آف ڈاک ورکرز سیفٹی، سینٹرل انسپکٹوریٹ آف مائنز بندرگاہی مزدوروں اور کان کنوں کو ٹریننگ دیتے ہیں۔ سینٹر فار اپروومنٹ آف ورکنگ کنڈیشنز اینڈ انوائرنمنٹ، جو کہ ڈائریکٹوریٹ آف لیبر ویلفیئر پنجاب کے تحت کام کر رہا ہے، بھی کارکنوں کو پیشہ ورانہ صحت و حفاظت کے امور پر تربیت اور معلومات دیتا ہے مزید یہ کہ یہ ادارہ کاروباری اداروں اور فیکٹریز میں پیشہ ورانہ صحت و حفاظت اور کام کے بہتر ماحول کے فروغ کیلیئے تحقیقاتی ادارے کے طور پر بھی کام کر رہا ہے۔آپ اس سنٹر سے تربیتی مٹیریل/نصاب، سیفٹی پوسٹرز/سائن بھی لے سکتے ہیں۔ مزید معلومات کیلیئے یہ لنک کھولیے۔
 
http://www.ciwce.org.pk/index.html
 
کیا ان قوانین میں نو عمر اور خواتین کے فیکٹریز یا کانوں میں کام کرنے کے بارے میں بھی کوئی دفعات موجود ہیں؟
 
پاکستان نے آئی۔ایل۔او کے ان کنونشنز کی توثیق کر رکھی ہے جو خواتین اور نو عمروں کو کام کی جگہ پر خصوصی رعایات دینے کے بارے میں ہیں۔ 
 
C45 Underground Work (Women) Convention, 1935
C89 Night Work (Women) Convention (Revised), 1948
C90 Night Work of Young Persons (Industry) Convention (Revised), 1948
 
کنونشن نمبر 45 کے آرٹیکل دو کے مطابق کسی بھی خاتون کو زیر زمین کان میں ملازم نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کنونشن کے تحتاور مائنز ایکٹ کی دفعہ 23C کے تحت اب کسی بھی خاتون کی زیرزمین کان میں ملازمت منع ہے۔ 
 
جہاں تک کم عمر، جو ابھی سترہ سال کی عمر کے نہ ہؤے ہوں، انکو بھی کان کے کسی حصے (زیر زمین یا زمین کے اوپر) میں ملازم نہیں رکھا جا سکتا جب تک انہیں کوالیفائڈ میڈیکل پریکٹیشنر فٹنس/اہلیت کا سرٹیفیکیٹ نہ دے دے۔ (مائنز ایکٹ کا سیکشن 26A ) 
 
اسی طرح سے خواتین اور نوبلوغوں کی صحت و حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے ، قوانین محنت خواتین کی رات کے وقت ملازمت پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ فیکٹریز ایکٹ کے سیکشن 45 کے تحت خواتین کو رات کے سات بجے تک کام کرنے کی اجازت ہے۔(تاہم اگر آجر خواتین ملازمین کیلیئے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دے تو وہ اپنی مرضی سےرات کو دس بجے تک بھی کام کر سکتی ہیں، انکو دوسری شفت میں کام پر مجبور نہیں کیا جا سکتا)۔ فیکٹریز ایکٹ ہی کی دفعہ 54 کے تحت کم عمر بچوں (جنکی عمر چودہ سال سے زائد ہو) سے شام کے سات بجے کے بعد کام نہیں کروایا جا سکتا۔ 
 
فیکٹری ایکٹ کی دفعہ 32 کے تحت کپاس کے بیلنے کے نزدیک یا روئی کی گانٹھیں تیار کرنے کیلیئے کسی عورت یا نوعمر کو ملازم نہیں رکھا جا سکتا۔ اس دفعہ میں کچھ استثنائی صورتوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ 
 
اسی طرح سے فیکٹریز ایکٹ کی دفعہ 33M کے تحت صوبائی حکومتوں کو ایسے ضوابط بنانے کا اختیار دیا گیا ہے جسمیں کچھ خاص قسم کی ٖفیکٹریوں یا انکے کچھ خاص حصوں میں نوعمروں کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ اس دفعہ کے تحت فیکٹری انسپکٹر کو بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ کسی فیکٹری یا اسکے کسی خاص حصے میں نوعمر کو ملازم نہیں رکھا جا سکتا یا انکی فیکٹری میں موجودگی انکی صحت کیلیئے مضر ہے تو فیکٹری مینیجر کو نوعمروں کا داخلہ روکنے کا حکم دے سکتا ہے۔ 
 
فیکٹریز ایکٹ کے سیکشن 28 کے تحت کوئی بھی کم عمر (نوعمر یا نوبلوغ) اسوقت تک کسی مشین پر کام نہ کرے جب تک اس اسکے بارے میں مکمل تربیت نہ دے دی گئی ہو اور وہ کسی ایسے شخص کی مناسب نگرانی میں، جو کہ اس مشین کے بارے مین کافی معلومات اور تجربہ رکھتا ہو، کام نہ کر رہا ہو۔ اس دفعہ کا اطلاق ان مشینوں پر بھی ہے جنکی نشاندہی صوبائی حکومت خطرناک مشینوں کے طور پر کرے۔ 
 
نوٹ: قوانین محنت میں کم عمر کی اصطلاح نو عمر اور نوبلوغ کیلیئے استعمال کی جاتی ہے۔ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق کمسن وہ ہے جس نے ابھی عمر کے چودہ سال پورے نہ کیے ہوں۔ نوعمر کی اصطلاح عام طور پر اس کیلیئے استعمال ہوتی جسکی عمر چودہ سال سے زائد ہو جبکہ نوبلوغ کی اصطلاح اس کیلیئے جسکی عمر چودہ سال سے زائد جبکہ اٹھارہ سال سے کم ہو۔ کئی دفعہ نوعمر اور نوبلوغ کو ملا کر کم عمر کہہ دیا جاتا ہے۔
 
کیا پاکستان میں پیشہ ورانہ حادثات کے بارے میں ڈیٹا موجود ہے؟ 
 
پاکستان لیبر فورس سروے پیشہ ورانہ بیماریوں اور حادثات پر تمام ملک سے ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔ مزید معلومات کیلیئے نیچے دیا گیا لنک کھولیں۔ 
 
http://www.statpak.gov.pk/depts/fbs/publications/lfs2008_09/t29.pdf
http://www.statpak.gov.pk/depts/fbs/publications/lfs2008_09/t30.pdf
http://www.statpak.gov.pk/depts/fbs/publications/lfs2008_09/t31.pdf
http://www.statpak.gov.pk/depts/fbs/publications/lfs2008_09/t32.pdf
 

 

  

 

Click here for English Version

Loading...