پاکستان میں سوشل سیکیورٹی اور پنشن سسٹم

ئین کی شق اڑتیس کے تحت حکومت پاکستان نے معاشرتی بیمہ کا سسٹم شروع کیا ہے اسکے تحت ایک ملازم کو چار قسم کے فوائد مل سکتے ہیں۔

 

 

 

 

پاکستان میں سوشل سیکیورٹی اور پنشن کے بارے میں کون کون سے قوانین موجود ہیں؟ براہ کرم ان قوانین کے تحت دی گئی مراعات/فوائد کے پر روشنی ڈالیں۔ 

 

 

 

حکومت پاکستان نے پہلی دفعہ ایمپلائز اولڈ ایج پنشنز آرڈیننس کا اجرا  1972 میں کیا تھا۔ تاہم اس قانون پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ بعد میں اسکی جگہ پر پارلیمنٹ کا منظور شدہ قانون ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹس ایکٹ 1976 لایا گیا۔ یہ سوشل انشورنس سسٹم دراصل آئین کی شق نمبر اڑتیس ، کے مقصد پر عمل درآمد کیلیئے شروع کیا گیا ہے جو کچھ یوں ہے

 

 

 

مملکت  معاشرتی تحفظ فراہم کرے گی:

 

ان تمام اشخاص کو جو حکومت پاکستان کی ملازمت میں ہوں یا دیگر اداروں میں ملازم ہوں، ایک لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا دیگر ذرائع سے۔ 

 

 

 

اس قانون کا اطلاق صرف نجی شعبے پر ہوتا ہے کیونکہ پبلک سیکٹر ملازمین، مسلح افواج کے ملازمین، پولیس آفیسرز، لوکل اتھارٹیز (لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت)، ریلویز اور دیگر آئینی اداروں کیلیئے پنشن کا سسٹم مختلف ہے۔ ان کے علاوہ حکومت نے نادار اور مسکین شہریوں کی بہبود کیلیئے دیگر پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ زکوۃوعشر آرڈیننس 1980کے تحت مسلمان نادار شہریوں کو مدد فراہم کی جاتی ہے جبکہ پاکستان بیت المال ایکٹ  1992 اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام آرڈیننس  2010 (یہ پروگرام   2008 میں شروع کیا گیا تھا) کے تحت تمام نادار شہریوں کی، قطع نظر انکے مذہب کے، مدد کی جاتی ہے۔ 

 

 

 

ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس ایکٹ کا اطلاق ان تمام صنعتی اور تجارتی اداروں پر ہوتا ہے (جن میں بنک اور پرائیویٹ سکولز بھی شامل ہیں) جہاں پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد ملازم ہوں یا پچھلے بارہ ماہ میں کسی وقت بھی ملازم رہے ہوں۔نیز اس قانوں کا اطلاق ملازمت یافتہ افراد کی تعداد پانچ سے کم ہونے کی صورت میں بھی جاری رہے گا۔ 

 

 

 

جہاں تک اس قانون کے تحت دیئے گئے فوائد/انتفاعات کا تعلق ہے اس میں تحفظ یافتہ/بیمہ شدہ ملازمین یا انکے پسماندگان کو تین قسم کی پنشن اور پنشن کیلیئے اہل نہ ہونے کی صورت میں ایک قسم کی گرانٹ مل سکتی ہے۔ انکی تفصیل کچھ یوں ہے:

 

 

 

ضعیف العمری/اولڈ ایج پنشن (یا تخفیفی پنشن)

 

پسماندگان کی پنشن

 

معذوری پنشن

 

ضعیف العمری امداد/اولڈ ایج گرانٹ

 

 

 

اس ایکٹ کے عملی نفاذ کی ذمہ داری ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹیٹیوشن (ای۔او۔بی۔آئ) پر ہے۔ ای۔او۔بی۔آئی ایک نیم خود مختار ادارہ ہے جو وفاقی وزارت محنت و افرادی قوت کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ اس کا انتظام و انصرام ایک سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز کے ذمہ ہے جہاں حکومتی ملازمین کے علاوہ مزدورں اور آجروں کے تمائندے بھی شامل ہیں۔ 

 


 

کیا آپ اوپردیئے گئے فوائدوانتفاعات پر مزید روشنی ڈالیں گے؟

 

 

 

قانون کے پانچوین باب کے تحت ماہانہ اولڈ ایج پنشن کی ادائیگی کا حکم ہے جس کیلیئے :

 

 

 

الف۔۔۔ مرد ہونے کی صورت میں عمر کی حد 60 سال، جبکہ خواتین ملازمین اور کان کنوں (جو پچھلے دس سال سے اس پیشے سے وابستہ ہوں) کی صورت میں عمر کی حد 55 سال ہے اور

 

 

 

ب۔۔۔۔بیمہ شدہ ملازمت کی مدت  کم از کم پندرہ سال ہے ( لیکن یہ مدت تب لاگو ہو گی اگر مرد ملازمین40 سال سے کم عمر میں رجسٹر ہوئے ہوں اور خواتین ملازمین 35 سال سے کم عمر میں رجسٹر ہوئی ہوں۔ جن افراد کی رجسٹریشن بعد میں ہوئی ہو ان کیلیئے بیمہ شدہ ملازمت کی مدت کم ہے۔) 

 

 

 

اگر ایک تحفظ یافتہ شخص ریٹائرمنٹ کی عمر میں پہنچنے سے پانچ سال پہلے ہی ریٹائر ہو جاتا ہے تو اسے ریٹائرمنٹ کی عمر میں پہنچنے سے پہلے تخفیفی پنشن دی جائے گی۔ اس صورت میں پنشن ماہانہ آدھا فیصد اور سالانہ چھے فیصد کے حساب سے کم ہو گی۔ اسطرح سے مرد ریٹائرڈ ملازمین کو  پچپن (55) سے انسٹھ   (59) سال کی عمر تک جبکہ خواتین ریٹائرڈ ملازمین کو پچاس(50)سے چون (54)سال کی عمر تک تخفیفی پنشن کی سہولت حاصل ہو گی۔ 

 

 

 

اس ایکٹ کے تحت معذوری پنشن بھی دی جاتی ہے اگر ایک ملازم دوران ملازمت یا ملازمت سے متعلق کسی کام کی وجہ سے زخمی ہو جائے اور دو تہائی/سڑسٹھ فیصد (67 فیصد) سے زیادہ (یعنی مستقل معذور) ہو جائے اور اسکی روزی کمانے کی صلاحیت اسی تناسب سے کم ہو جائے۔ اس صورتحال میں وہ معذوری پنشن کا حقدار ہو گا لیکن یہ ضروری ہے کہ اسکے 

 

 

 

الف۔۔۔۔کم از کم 15سال کیلیئے لازمی چندہ (کنٹریبوشن) ادا کر دیا گیا ہو یا

 

ب۔۔۔کم از کم 5 سال کیلیئے لازمی چندہ (کنٹریبوشن) ادا کیا گیا ہو مزید بر آں جسمیں کم از کم 3 سال رجسٹرڈشدہ ملازمت کے ہوں

 

 

 

جب تک کارکن کی معذوری برقرار رہے گی معذوری پنشن ادا کی جاتی رہے گی تاہم اگر معذوری پانچ سال تک متواتر برقرار رہے تو کارکن اس پنشن کیلیئے تاحیات اہل ہو جاتا ہے مزید یہ کہ اگر کارکن معذوری پنشن حاصل کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کی عمر (مردوں کیلیئے 60 سال اور خواتین کیلیئے 55 سال) کو پہنچ جائے تو یہ پنشن خود بخود اولڈ ایج پنشن میں بدل جاتی ہے۔ 

 

 

 

اس ایکٹ کے تحت پسماندگان کی پنشن بھی دی جاتی ہے (جو کہ کم از کم پنشن کے برابر ہوتی ہے)۔ اگر کوئی ملازم دوران ملازمت، یا اولڈ ایج پنشن یا معذوری پنشن وصول کرتے ہوئے وفات پا جائے اور اسکی رجسٹرڈ شدہ ملازمت کی مدت کم از کم تین سال ہو تو اسکی بیوہ/رنڈوا پوری زندگی متوفی کی پنشن لینے کے حقدار ہوں گے تاہم اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ دوران ملازمت وفات کی صورت میں ملنے والی پنشن کم از کم پنشن ہو گی جبکہ اولڈ ایج پنشن یا معذوری پنشن کی رقم کم از کم پنشن سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ پنشنر اور بعد میں شریک حیات کی وفات کی صورت میں اگر کوئی بیٹا یا بیٹی نابالغ ہو تو بیٹا اٹھارہ سال کی عمر تک اور بیٹی شادی ہونے تک اس پنشن کے حقدار ہونگے۔ اگر اس ملازم نے کوئی پسماندگان (یعنی بیوی بچے) نہ چھوڑے ہوں لیکن والدین زندہ ہوں تو انہیں پانچ سال تک پنشن دی جائے گی۔ 

 

 

 

اس سے قبل کہ ہم اولڈ ایج گرانٹ کے بارے میں بات کریں یہ جاننا ضروری ہے کہ یکم جولائی  2010  سے کم از کم پنشن (اولڈ ایج، معذوری اور پسماندگان پنشن) بڑھا کر 3000 روپے کر دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ اولڈ ایج، معذوری اور پسماندگان کی پنشن کا حساب ایک فارمولے کے تحت کیا جاتا ہے۔ وہ فارمولا کچھ یوں ہے:

 


 

ملازمت کے آخری سال کی اوسط تنخواہ کا دو فیصد × رجسٹرڈ شدہ ملازمت کے کل سال

 

 

 

اس فارمولے کے مطابق پنشن کی جو رقم بھی بنے وہ ملازم یا اسکے پسماندگان کو ادا کی جائے گی تاہم اگر یہ رقم کم از کم پنشن یعنی تین ہزار روپے سے کم ہو تو تو اسے کم از کم پنشن ادا کی جائے گی۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ قانون کسی بھی ملازم کو بیک وقت ایک سے زیادہ پنشن حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور وہ صرف وہی فائدہ حاصل کرنے کا مجاز ہو گا جسکی رقم زیادہ ہو گی۔ 

 

 

 

اولڈ ایج گرانٹ ان ملازمین کو ادا کی جاتی یے جو اولڈ ایج پنشن کیلیئے اہل نہ ہوں یعنی اگر وہ پندرہ سال کی کنٹریبیوشن کی لازمی شرط پوری نہ کرتے ہوں لیکن انکی کم از کم دو سال کی رجسٹرڈ شدہ ملازمت ہو تو اس صورت میں ان ملازمین کو ہر سال کے بدلے میں ایک ماہ کی تنخواہ یکمشت ادا کی جاتی ہے۔ اسکا فارمولا یوں درج ذیل ہے۔

 


 

ملازمت کے آخری ماہ کی تنخواہ × رجسٹرڈ شدہ ملازمت کے سال

 



 

آپ نے اوپر کنٹری بیوشن کا ذکر کیا ہے۔ کیا آپ اسکے ریٹس کے بارے میں مزید معلومات فراہم کر سکتے ہیں؟ 

 

 

 

ای۔او۔بی۔آئی ایکٹ کے تحت ایک آجر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا اور کارکن کا کنٹری بیوشن/چندہ ہر ماہ کی پندرہ تاریخ سے پہلے ای۔او۔بی۔آئی کے مجاز/مقرر کردہ بنک میں جمع کرائے۔ اس ایکٹ کے مطابق ایک آجر کو کم از کم تنخواہ کا پانچ فیصد اور کارکن کو کم از کم تنخواہ کا ایک فیصد بطور چندہ(کنٹری بیوشن)  جمع کروانا ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجودہ سات ہزار (7000)روپے کی کم از کم تنخواہ کو مدنظر رکھتے ہوئے :

 

 

 

ایک آجر کو 350 روپے جمع کروانا ہوتے ہیں ( پانچ فیصد × سات ہزار روپے)

 

ایک کارکن کو 70 روپے جمع کروانا ہوتے ہیں ( ایک فیصد × سات ہزار روپے)

 

 

 

اسطرح سے مجموعی طور پر ایک تحفظ یافتہ شخص کیلیئے ہر ماہ  چار سو بیس(420) روپے چندہ جمع کروایا جاتا ہے۔ آجر اور کارکن کے چندے کے علاوہ وفاقی حکومت بھی چندہ ڈال سکتی ہے۔ ان کے علاوہ سیلف ایمپلائڈ (خود روزگار) اور دیگر ملازمین جو اس ایکٹ کے تحت نہ آتے ہوں خود چندہ جمع کروا کر بھی اوپر دیئے گئے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔  

 

 

 

اوپر بار بار تحفظ یافتہ/رجسٹرڈ شدہ شخص اور رجسٹرڈ /قابل بیمہ ملازمت کا ذکر کیا گیا ہے کیا آپ اسکی وضاحت کر سکتے ہیں؟

 

 

 

اس قانون کے مطابق بیمہ شدہ/تحفظ یافتہ شخص وہ ہے جو قابل بیمہ ملازمت میں ہے یا  ماضی میں تھا اور اس ملازمت سے مراد کوئی بھی ملازمت خواہ تحریری یا زبانی، صراحتاً یا اشارتاً ہو اور جس سے متعلق اس قانون کے تحت چندہ واجب الادا ہو اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا اس قانون کا اطلاق ان تمام اداروں پر ہوتا ہے جہاں کم از کم پانچ افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ ملازم ہوں۔ 

 

 

Loading...